Orhan

Add To collaction

کسی مہرباں نے آ کے

کسی مہرباں نے آ کے 
از قلم ماہ وش چوہدری
قسط نمبر3

ضرار شاہ جاتے جاتے ناصرف چیک چھوڑ گیا بلکہ اپنا لمس بھی ابیہا ہاشم کے ہاتھوں پر چھوڑ کر جا چکا تھا۔۔۔
سنو۔۔۔۔رکو۔۔۔۔۔کون ہو تم۔۔۔۔رکو۔۔۔۔میری بات سنو پلیز۔۔۔۔۔ابیہا اُسکے اوجھل ہوتے ہی ہوش میں آ کر اُسکے پیچھے بھاگی۔۔۔۔مگر وہ
 جا چکا تھا۔۔۔
وہ حیرت سے اپنے ہاتھ میں موجود دس لاکھ کے چیک کو دیکھ رہی تھی۔۔
              ……………………………………………
لیب میں مختلف کیمیکلز کی سمیل 
نے ضرار شاہ کا استقبال کیا۔۔۔۔وہ آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتا اردگرد کا جائزہ لے رہا تھا۔۔۔
سیمل۔۔۔وہ دیکھو ضرار شاہ۔۔۔۔حمنا نے اُسے ہلایا جو ایسڈ کے جار کو احتیاط سے ٹیبل پر رکھ رہی تھی۔۔۔
ایڈیٹ یہ ایسڈ ہے گر گیا تو۔۔۔۔سیمل نے اُسے گھور کر کہا
چھوڑو اس ایسڈ ویسڈ کو۔۔۔۔وہ دیکھو ضرار شاہ۔۔۔۔حمنا نے کچھ فاصلے پر موجود ضرار کی طرف اشارہ کیا
تیرے مامے کا پُتر ہے یہ ضرار شاہ جو کان کھائی جا رہی ہو۔۔۔۔وہ چڑی
ارے نہیں یار۔۔۔وہ آکسفورڈ یونی کا اسٹوڈینٹ۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
ہاں تو میں کیا کروں اسے۔۔۔۔سیمل نے ایک نظر اُس آدھے انگریز اور آدھے پاکستانی کو دیکھا جو بلیک پینٹ اور بلیک ہی ٹی شرٹ میں ریڈ جوگز پہنے بہت دلکش لگ رہا تھا۔۔
کتنا ہینڈسم ہے ناں۔۔۔۔حمنا نے حسرت سے کہا
ہو گا۔۔۔۔۔۔سیمل نے شان سے کہہ کر بیگ سے سیل نکالا
بہت ہی بور ہو تم قسم سے۔۔۔۔۔۔تمہیں آج سے دو، چار صدیاں پہلے اس دنیا میں آنا چاہیے تھا۔۔۔۔بُڈھی روح۔۔۔۔حمنا نے اسکے بازو پر دھپ ماری۔۔۔
دھپ لگنے سے سیمل کا سیل چھوٹ کر ٹیبل کے نیچے جا گرا۔۔۔
ڈفر۔۔۔۔اس نے حمنا کو گھورا 
سسوووووررری۔۔۔۔۔یار۔۔۔سوری۔۔۔وہ ڈھٹائی سے مسکرائی
اچھا تم اُٹھاؤ سیل۔۔۔۔ میں اتنے میں آئلہ سے نوٹس پکڑ لاؤں۔۔۔۔۔حمنا کہتی ہوئی آئلہ کے گروپ کیطرف بڑھ گئی۔۔
ضرار شاہ سیل کان سے لگائے گرینی سے بات کرتا ہوا اُسی طرف بڑھ رہاتھا۔۔۔
باپ سے مل آنا۔۔۔۔
میرا موڈ نہیں گرینی اینڈ پلیز ڈونٹ فورس
 می مور۔۔۔۔وہ اکتایا ہوا سا بولا
اوکے فائن ۔۔۔ایز یو وش مائی سن۔۔۔۔وہ مسکرائیں
ٹھینکس سویٹی۔۔۔۔۔۔۔
وہ  بات کرتا ہوا  نیلے پیلے کیمیکلز کے
 جارز کو دیکھتا آگے بڑھا کہ اچانک پاؤں کسی وجود سے زور دار انداز میں ٹکرایا۔۔۔
اس تصادم کے نتیجے میں نہ صرف اُس
 کا سیل چھوٹ کر دور جا گرا بلکہ وہ خود بھی نیچے جھکے ہوئے وجود پر گرا۔۔۔۔۔۔
ضرار شاہ کا بچاؤ کے لیے اٹھایا گیا ہاتھ ٹیبل پر موجود ایسڈ جار  پر پڑا۔۔۔۔۔
اور پھر۔۔۔۔۔پھر۔۔۔۔۔
پورے لیب میں سیمل فاروق کی کرب ناک
چیخیں بلند ہوئیں۔۔۔۔۔ً
              ……………………………………………
بیا کہاں تھی تم۔۔۔۔رات کے دس بج
 چکے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔امی بار بار پوچھ رہیں تھیں تمہارا۔۔۔نیہا نے اُسے گیٹ پر ہی روکا
انف نیہا۔۔۔۔آگے تو آنے دو مجھے۔۔۔وہ غصے سے کہتی آگے بڑھی
امی سو گئیں کیا۔۔۔۔۔اس نے برآمدے میں آ کر پوچھا
ہاں۔۔۔وہ میڈیسن لے لی تھی اسی لیے۔۔۔
اچھا مجھے بھوک نہیں ہے تم کھانا کھا 
لو۔۔۔۔۔۔۔میں سونے جا رہی ہوں مجھے تنگ مت کرنا۔۔۔۔۔۔ابیہا کہتی ہوئی سیڑھیاں
 پھلانگ گئی۔۔
نیہا نے حیرانی سے اُسکی پشت کو دیکھا۔۔
               ……………………………………………
ضرار شاہ ۔۔۔۔۔عالم شاہ اور فاطمہ(جیکلین) کا اکلوتا بیٹا تھا۔۔۔
عالم شاہ تعلیم کے سلسلے میں یوکے گئے اور وہیں انہیں جیکلین پسند آ گئی۔۔۔دوسری طرف جیکلین بھی ان سے متاثر ہو چکی تھی۔۔
عالم شاہ کو جیکلین کی پسنددیدگی کا
 پتہ چلا تو  اظہار میں ذرا دیر نہ کی۔۔۔۔
جیکلین تو جیسے تیار ہی بیٹھی تھی۔۔۔۔۔ فورا سے شادی کا کہا۔۔۔۔۔
پر مذہب کی  دیوار کو عالم شاہ نے محسوس کیا۔۔۔۔۔
مگر یہ مسلہ بھی جیکلین نے خود ہی حل کر دیا اسلام قبول کرکے۔۔
اب شادی میں کوئی رکاٹ نہ تھی۔۔۔۔۔اس لیے ایک روز دونوں نکاح کے مضبوط بندھن میں بندھ گئے۔۔۔۔عالم شاہ نے جب پاکستان اپنی شادی کا بتایا تو وہاں سے غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔۔۔اور ساتھ ہی وجاہت شاہ (والد) کی طرف سے قطع تعلقی بھی کر دی گئی۔۔۔۔
شادی کے ڈیڑھ سال بعد فاطمہ(جیکلین) ضرار شاہ کو جنم دے کر اس دنیا سے چلی گئ۔۔۔
عالم شاہ نے بہت مشکل سے خود کو سنبھالا اور اب وہ واپس پاکستان جانا چاہتے تھے۔۔۔
گرینی (فاطمہ کی مدر) نے عالم شاہ پر زور دیا کہ وہ ضرار کو انکے پاس یوکے چھوڑ جائیں۔۔۔۔تھوڑی پش وپیش کے بعد وہ ایک سالہ ضرار کو گرینی کے پاس چھوڑ کر واپس پاکستان آ گئے۔۔۔
ضرار نے بھی اپنی ذات گرینی تک محدود کر لی۔۔۔۔باپ سے کوئی خاص لگاؤ نہ تھا۔۔۔محض فون پر چند باتیں کر لیتا۔۔۔۔
عالم شاہ کے اصرار کے باوجود وہ مستقل پاکستان نہیں آیا تھا۔۔۔۔
عالم شاہ پاکستان میں اپنی کزن سے شادی کر چکے تھے جس سے اُن کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔۔۔۔
شاید اسی لیے ضرار پاکستان نہیں آتا تھا کہ باپ کو کونسا اُسکی ضرورت ہے۔۔۔۔اولاد تو اُنکے پاس موجود ہے۔۔۔۔
مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ اولادیں چاہے کتنی ہی ہوں مگر پہلی اولاد کی اپنی ہی بات ہوتی ہے۔۔۔۔۔کیونکہ پہلی اولاد ہی ایک عورت اور مرد کو پہلی دفعہ ماں اور باپ کے رُتبے پر فائز کرکے ان کی تکمیل کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
             ………………………………………………
اگلے دن ابیہا نے ہوسپٹل میں سارے چارجز جمع کروائے اور اس سے اگلے ہی دن کا آپریشن اپوائنٹمنٹ لے لیا۔۔۔۔۔۔
وہ کافی حد تک خود کو سنبھال چکی تھی۔۔۔اور بارہا اُس پاک ذات کا شکر ادا کر چکی تھی جس نے اس مہرباں کو بھیج کر اُسے گندگی میں لتھڑنے سے بچا لیا۔۔۔۔۔
وہ کون تھا ۔۔۔۔اور کیوں اتنی بڑی رقم بنا کسی ثبوت کے دے گیا۔۔۔۔اس بارے میں   وہ فلحال سوچنا نہیں چاہتی تھی۔۔
نیہا بارہا اُس سے اتنے زیادہ پیسوں کا پوچھ چکی تھی مگر ابیہا نے اُسے ٹال دیا۔۔۔۔۔ابھی سب سے ضروری ماں کا آپریشن تھا۔۔۔۔وہ خیریت سے ہو جائے باقی سب پھر۔۔۔۔
یہی سوچ کر وہ خود کو ریلیکس کر
 چکی تھی۔۔
              ……………………………………………
سیمل ٹیبل کے نیچے سے موبائل اٹھانے جھکی تھی جب ضرار اُس کی ٹانگوں سے اڑ کر گرا اور اس کے ہاتھ سے گرنے والا ایسڈ سیمل کے چہرے کو داغدار کر گیا۔۔۔۔
تین ہفتے تک سیمل ہوسپٹل ایڈمٹ رہی۔۔۔۔اس دوران ضرار شاہ نے سیمل کے گھر والوں سے معافی مانگی تھی۔۔۔
سب جانتے تھے یہ ایک حادثہ تھا۔۔اس لیے فرح بیگم نے اُسے معاف کر دیا تھا۔۔۔۔۔وہ سیمل سے ملنا چاہتا تھا مگر ڈاکٹرز نے منع کیا تھا کسی کو بھی ملنے سے۔۔۔۔۔
اُن کے ٹوئر کی واپسی کا دن آ گیا تھا اور وہ سیمل سے ملے بنا اس سے ایکسکیوز کیے بنا ہی واپس یوکے آ گیا۔۔۔۔۔۔
              ……………………………………………
سیمل کی دو سرجریز ہوئیں جس سے اُسکا فیس کافی حد تک ریکور کر گیا تھا۔۔۔۔۔۔مزید سرجریز درکار تھیں مگر سیمل کے دونوں بھائیوں نے اتنے اخراجات اُٹھانے سے انکار کر دیا۔۔۔۔جسکی وجہ سے ابھی کچھ  سیاہ دھبے کنپٹی سے کان کے نیچے تک موجود تھے۔۔۔۔اور اُسکے چہرے کے ان داغوں کی وجہ سے ہی ہر رشتے والے انکار کر جاتے تھے۔۔۔۔دو سال ہو گئے تھے اس حادثے کو جب فرح آج پھر سے اُسے کہنے آئیں تھیں کہ ایک اچھا رشتہ آیا ہے اُس کے لیے۔۔
سیمل۔۔۔۔وہ لوگ کل آئیں گے 
مجھے اور تمہارے بھائیوں کو کوئی اعتراض نہیں ہے اس رشتے پر اور وہ لوگ بھی
 رشتے کے ساتھ ہی  شادی کی ڈیٹ بھی لے لیں گے۔۔۔۔
سیمل نے حیرانگی سے ماں کو دیکھا
کیوں۔۔۔۔۔پہلے مجھے دیکھیں گے نہیں کیا۔۔۔؟؟؟؟وہ طنزیہ بولی
وہ تمہیں دیکھ چکا ہے۔۔۔فرح بیگم نے آہستگی سے کہا۔
کون۔۔۔۔؟؟؟؟وہ ہونق ہوئی
ضرار شاہ۔۔۔۔۔دھماکا ہوا
ماں کے منہ سے ضرار شاہ کا نام سُن کر وہ بُت بن گئی۔
             ……………………………………………
ضرار پاکستان سے واپس تو آ گیا تھا مگر اُسکی سوچیں ابھی بھی وہیں تھیں۔۔۔۔
وہ جانتا تھا اس سب میں اس کا کوئی قصور نہیں مگر پھر بھی گلٹی فیل کر رہا تھا۔۔۔۔
وہ سوچ چکا تھا اُسے کیا کر نا ہے مگر اپنی اسٹڈیز کمپلیٹ کر کے ہی کوئی اسٹیپ لینا چاہتا تھا۔۔۔
دو سال ہو گئے تھے اُس حادثے کو جب  اُس نے گرینی سے سیمل سے  شادی کا کہا۔۔۔۔
گرینی اُس کی فطرت اچھے سے جانتی تھیں
 کہ جب بھی اُس کے ہاتھوں کسی کا نقصان ہو جائے تو وہ تب تک چین سے نہیں بیٹھتا جب تک اس نقصان کو کسی نہ کسی طرح پورا نہ کر دے۔۔۔۔۔
وہ جانتی تھیں کے ضرار صرف اپنی غلطی کے ازالے کے لیے سیمل سے شادی کر رہا ہے اس سب میں دل کا کوئی معاملہ نہیں مگر وہ اسے روکنا نہیں چاہتی تھیں۔۔۔۔۔اسلیے  انہوں نے عالم شاہ سے بات کی ۔۔۔۔
عالم شاہ کو اور کیا چاہیے تھا اُن کا بیٹا 
پاکستان میں شادی کر رہا تھا۔۔۔اس لیے انہوں نے  فورًا حامی بھر لی۔۔۔۔
اور آج عالم شاہ،  گرینی اور ضرار شاہ سیمل فاروق کے گھر اُسکا رشتہ لینے آئے تھے۔۔۔
فرح بیگم نے سیمل کی مرضی کے خلاف  ہی اُن کو ہاں میں جواب دے کرتین دن بعد نکاح اور پندرہ دن بعد رخصتی طے کر دی تھی۔۔۔
               ……………………………………………
جلدی سے تیار ہو جاؤ سیمل۔۔۔۔مارکیٹ کا چکر لگا آئیں۔۔۔تمہاری بھابھیوں سے مجھے کوئی امید نہیں ہے اس لیے خود ہی شاپنگ
 کر آئیں۔۔۔۔
 اٹھو میرا بچہ۔۔۔۔فرح نے ساکت بیٹھی سیمل کا کندھا ہلایا۔۔۔
میں نہیں جاؤں گی۔۔۔۔۔اور نہ ہی یہ شادی کروں گی۔۔۔
سیمل بچپنا چھوڑو تم جانتی ہو سب پھر بھی۔۔۔
میں جانتی ہوں اسی لیے کہہ رہی ہوں مجھے ضرار شاہ سے شادی نہیں کرنی ہے۔۔
کیوں نہیں کرنی شادی۔۔۔۔۔۔ تم جانتی ہو ناں دو دن بعد نکاح ہے تمہارا۔۔۔۔
مجھے نفرت ہے ضرار شاہ سے ۔۔۔میں ہر گز اس سے شادی نہیں کروں گی۔۔۔جب جب اُسے دیکھوں گی مجھے اُس روز اسکی وجہ سے ملنے والی اذیت یاد آئے گی اور
 میں اُسے۔۔۔۔۔
بس سیمل اُس روز جو بھی ہوا اس میں ضرار کا کوئی قصور نہیں تھا۔۔۔۔فرح تحمل سے بولیں
قصور تو میرا بھی نہیں تھا امی پھر مجھے کیوں سزا ملی۔۔۔۔۔
اور تم اس سزا کو ختم کو نسا کرنا چاہتی ہو ۔۔۔ پیچھلے دو سال سے ریجیکشن سن سن کر تھکی نہیں ہو کیا جو پھر انکار کر رہی ہو۔۔۔۔۔وہ خفا ہوئیں
تو یوں کہیں ناں آپ بھی تنگ آ گئی ہیں مجھ سے اپنے بیٹوں کی طرح ۔۔۔۔
سیمل۔۔۔۔سیمل۔۔۔سمجھ کیوں نہیں رہی ہو تم۔۔۔۔
مجھے نہیں سمجھنا امی۔۔۔
تو مت سمجھو بس اتنا جان لو کہ یہ تمہاری ماں کا فیصلہ ہے 
امی۔۔۔۔وہ منمنائی
پلیز سیمل میں ہاتھ جوڑتی ہوں میری بوڑھی ہڈیوں میں اتنی طاقت نہیں کہ تمہیں اس زمانے کہ سرد وگرم سے مزید بچا سکوں۔۔۔۔۔میری جان۔۔۔۔اپنی ماں کی آخری خواہش سمجھ کر قبول کر لو۔۔۔۔یہ لو ہاتھ جوڑتی ہوں تمہارے سامنے۔۔۔۔
امی یہ کیا۔۔۔پلیز امی ۔۔۔۔مم۔۔۔میں تیار ہوں۔۔۔سیمل نے ماں کے ہاتھوں کو پکڑ کر ہونٹوں سے لگا لیا۔
              …….………………………………………
ٹھیک تین دن بعد سیمل فاروق اور ضرار شاہ کا نکاح ہو گیا۔۔
پندرہ دن بعد رخصتی تھی۔۔۔۔۔۔۔اور ان پندرہ دنوں میں ہی عالم شاہ نے اپنے اثرورسوخ سے سیمل کے پیپرز بھی ریڈی کروا لیے تھے۔
اور سولہویں دن صبح گیارہ بجے کی فلائٹ 
سے گرینی ، ضرار اور
 سیمل ۔۔۔۔مسز سیمل ضرار۔۔۔۔۔ بن کر یوکے کے لیے فلائی کر گئے تھے۔۔۔۔۔

   1
0 Comments